صفحات

Monday, August 28, 2017

مری کے مضافات


مری کے مضافات
مسوٹ:
شہر کے شمال میں 12 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔اور سطح سمندر سے تقریبا 6500 فٹ کی بلندی پر ہے۔998 ایکڑ  رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔زیادہ تر ڈھونڈ ہیں 
مسیاڑی:
شہر کے جنوب مشرق میں 3 کلو میٹر کے فاصلے پر پہاڑ کی ڈھلوانی سطح پر 6000 فٹ کی بلندی پر ہے۔ اس کا رقبہ 759 ایکڑ ہے۔اس میں بھی زیادہ تر ڈھونڈ  ہی ہیں 
ملوٹ ڈھونڈاں:
شہر کے شمال میں 13 کلو میٹر فاصلے پر موہڑہ شریف مزار سے ملحقہ یہ گاوں 477 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔زیادہ تر ڈھونڈ ہیں اور تھوڑی تعداد میں راجپوت اور اعوان بھی ہیں۔
ملوٹ ستیاں:
شہر کے جنوب میں 38 کلو میٹر دور پہاڑی کی ڈھلان پر 4400 فٹ کی بلندی پر واقع یہ گاوں 22 چھوٹی ڈھوکوں پر مشتمل ہے۔ اور کل رقبہ 3600 ایکڑ ہے۔ یہاں زیادہ اکثریت ستی قبیلے کی ہے۔
مہنگل:

مری سے 22 کلو میٹر کے فاصلے پر 3293 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا  ہے۔ یہاں دھنیال قبیلہ زیادہ تعداد میں ہے 

add or remove watermark

بجلی

 مری میں بجلی 1933 میں آئی۔ایک ہندو صنعت کار گلاٹی مل کی کمپنی تھی اور اس کا نام " گلاٹی مل الیکٹرک پاور کمپنی" رکھا گیا۔اس کمپنی نے اسی سا ل کلڈنہ میں پاو ہاوس تعمیر کروایا۔ دو سال کے عرصے میں اہم سرکاری دفاتر اور کوٹھیوں کو بجلی کی سہولت دی گئی۔
9 مارچ 1935 کو پہلی بار پاور ہاوس میں دو ڈیزل انجن نصب کئے گئے۔ جو 70 کلو واٹ کے تھے۔ 
بجلی کی آمد سے شہر کی اہمیت اور کشش میں اضافہ ہوا اور سیاحوں کی تعداد بھی بڑھی۔اس ضرورت کے پیش نظر 1938 اور 1940 میں مزید 4 پاور 
انجن نصب کئے گئے اور اب ان کی تعداد آتھ ہو گئی۔ آزادی کے دو سال بعد حکومت نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا۔ اور دور دراز مضافات میں پہنچا دیا۔
1958 میں یہاں لکڑی کے پول ہٹا  کر آہنی پول نصب کئے گئے۔ 1958 میں جب مالاکنڈ پاور پلانٹ سے بجلی مہیا ہونے لگی تو پرانے آٹھ انجنوں کو روک دیا گیا۔
شہر اور اس کے نواحات میں جن مقامات پر بجلی کے سب اسٹیشن ہیں ان کے نام یہ ہیں۔
پنڈی پوائنٹ،تریٹ،جی پی و چوک،چھرہ پانی،کشمیر پوائنٹ،کلڈنہ ،گھوڑا گلی

Saturday, August 26, 2017

آبادی اور قومیں

 تحصیل مری نے 434 مربع کلومیٹر کا مجموعی علاقہ قبضہ کر رکھا ہے ۔1998 کی مردم شماری کے مطابق 176426 افراد کی آبادی ہے جس میں 155،051 دیہی علاقوں میں رہتے ہیں جبکہ دیگر مری شہر میں رہتے ہیں اور مختلف پہاڑوں ، پہاڑیوں اور دیہاتوں میں پھیلتے ہیں.

ڈھونڈ (عباسی) قبیلے نے مری کے زیادہ سے زیادہ دیہی علاقوں پر قبضہ کر رکھا  ہے. یہ قبیلہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس  سے شروع ہوتا ہے.  ارد گرد کے تمام علاقوں میں ڈوھنڈ(عباسیوں) کی کافی موجودگی ہے. قبائلی آزاد کشمیر میں بھی ان کی زیادہ تر آبادی ہے. ضلع منصور، اسلام آباد اور راولپنڈی، تک یہ موجود ہیں۔
کچھ ایسے قبیلے ہیں جو تحصیل مری میں موجود ہیں جن میں ستی، کیتھوال ، مغل،قریشی ،گجر اور اعوان شامل ہیں۔ستی زیادہ تر کوٹلی ستیاں میں آباد ہیں۔

.شہری علاقوں میں ملک بھر سے لوگوں بڑی تعداد ہوتی ہے ۔جو گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے آتے ہیں، مستقل لوگ تعداد میں بہت کم ہیں۔

Friday, August 25, 2017

صنعت و حرفت

 مری ایک پہاڑی علاقہ ہے اور میدانوں سے الگ  تھلگ ہونے کی وجہ سے یہاں  صنعت و حرفت،تجارت کے مواقع ہمیشہ ہی کم رہے ہیں۔ انگریزوں نے بھی کچھ مصلحتوں کے باعث اس علاقے  کو صنعت و حرفت کے شعبے میں پیچھے رکھا۔تاہم یہاں  ماضی میں  انفرادی سطح پر اور اداروں کی صورت میں صنعتوں کے قیام کی کوشش کی گئی۔ اور 1860 میں پہلی صنعت "مری بروری ڈسٹلری" کے نام سے قائم  کی گئی۔شراب سازی کی یہ صنعت ایشیا ء کی سب سے قدیم  صنعتوں میں سے ایک تھی۔جس کی ابتدا دو لاکھ کے سرمائے سے کی گئی۔1900 میں اسے پنڈی منتقل کیا گیا اور  1947 میں کے  فسادات میں جل کر خاکستر ہو گئی۔

1963 میں تریٹ میں کالین بافی کی گھریلو  صنعت قائم ہوئی۔

1946 میں سنی بنک میں شہد کی مکھیوں کا ایک فارم قائم  کیا گیا۔        

       زراعت میں آلو اور مکئی کو  اس علاقے میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ سبزیاں اگانے کا رواج بھی عام ہے۔مارچ کے مہینے میں جنگلات میں کھمبیاں (جنہیں مقامی زبان میں گچھیاں  کہا جاتا ہے)پیدا ہوتی ہیں۔جو بادلوں کی گرج میں زمین کی تہوں سے پھوٹ نکلتی ہیں۔ یہ خود رو گچھیاں ایک منفرد پیداوار ہیں۔ یہ  دل کے مریضوں کے لئے بہت فائدہ مند ہوتی ہیں۔یہاں کے پھلوں میں سیب سب سے اچھا  اور لذیز پھل ہے۔اگرچہ یہاں کا سیب ابھی مٹھاس اور رس میں کشمیر اور کوئٹہ کے سیب کا مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن اس کااپنا منفرد ذائقہ ہے۔  1960 میں یہاں پھلدار درخت لگانے کی مہم کا  آغاز ہوا ۔ جس کے تحت کوٹلی،چارہان،کرور،چھرہ پانی،دہلہ،اوسیاہ اور گہل میں نرسریاں قائم کی گئی۔ان نرسریوں میں تجربات کرنے کے لئے سیبوں کے مختلف پودے آسٹیریلیا،امریکہ،بھارت،اور لبنان سے منگوائے گئے۔اور لوگوں کو  درخت لگانے  کی ترغیب دی گئی۔  1960 سے لے کر 1967 تک کروڑوں پودے باہر سے منگوا کر  کاشت کاروں میں تقسیم کئے گئے۔ اس عشرے میں اعلی معیار کا سیب پیدا ہوا اور دوسرے شہروں میں بھی سپلائی کیا گیا۔ مگر بعد  میں سپرے دی عدم دستیابی اور مقامی لوگوں کی  عدم توجہی کی وجہ سے  سیبوں کی پیداوار بہت کم ہو گئی۔

Thursday, August 24, 2017

ملکہ کوہسار کا موسم

 پورے سال مری کا موسم خوشگوار رہتا ہے.  بہار کا دلفریب  موسم مارچ سے لے کر مئی کے آخر تک رہتا ہے۔مارچ کے اوائل میں زیادہ تر بارشیں اولے اور بجلی کی کڑک ہوتی ہے۔   جون  پاکستان کا سب سے گرم مہینہ ہے لیکن یہاں موسم گرما برائے نام ہی ہوتا ہے۔یہ عام طور پر مئ کے آخر سے لے کر جولائی کے اوائل تک رہتا ہے۔ اس مہینے میں بھی  25 ° C یا 77 ° F درجہ حرارت کو چھوتا ہے. یہ سیاح حضرات کے لئے ایک بہت آرام دہ درجہ حرارت ہے. موسم گرما کے موسم کے دوران ملک کے میدانوں کے درجہ حرارت 40 ° C (104 ° F) تک پہنچ جاتا ہے.

               جولائی کےآغاز سے اگست کے اواخر تک موسم برسات رہتا ہے۔ یہی اس پہاڑی اسٹیشن کی مقبولیت کا بنیادی سبب ہے. برسات کے دنوں میںپہاڑوں پر دھند کا غلاف چڑھا رہتا ہے۔ جو مری کے  فطری حسن کا خاص تحفہ ہے۔ سب سے زیادہ سیاح انہی دنوں مری کا رخ کرتے ہیں۔

                   ستمبر کے وسط سےیہاں خزاں کا آغاز ہو جاتا ہے جو سردیوں کے شروع تک جاری رہتا ہے۔یہ موسم اپنے ساتھ اداسی لاتا ہے۔کیونکہ  سیاح بھی اپنا رخت  سفر باندھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان دنوں میں مال روڈ پر بہت کم رش ہوتا ہے۔
موسم سرما کا آغاز دسمبر کے شروع میں ہوتا ہے اور مارچ کے آغاز تک جاری رہتا ہے۔موسم  سرما بہت سرد ہوتا ہے اور برف باری زیادہ اور بار بار ہوتی ہے. برفباری کا نظارہ بھی سیاحوں کے لئے بہت دلکش ہوتا ہے۔. موسم سرما کے موسم میں مری کا درجہ -3.3 سے -12 تک گر جاتا ہے. اور  بعض جگہ  تو  درجہ حرارت 18 C.تک پہنچ جاتا ہے ان دنوں میں سکول کالج بند ہوتے ہیں۔ 
کہا جاتا ہے کہ مری میں سب سے زیادہ برف باری 1943 میں ہوئی  جو بیک وقت 13 فٹ تک تھی۔ 1953 میں بھی شدید برف باری ہوئی تھی جومسلسل تین دن اورتین راتوں تک جاری رہی اور بیک وقت 6 فٹ تک برف پڑی تھی۔ 

               آزادی سے پہلے یہ برطانوی حکمرانوں کے پسندیدہ پہاڑی سٹیشن تھا. یہ برصغیر میں ان کےلئے گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے لئے ان کا بہترین ذریعہ تھا.  مری شہر  کی اونچائی  سطح سمند سے7،000 فٹ ہے ۔

Thursday, August 17, 2017

مری کے تفریحی مقامات

پنڈی پوائنٹ 

 پنڈی پوائنٹ مری مال روڈ سے 3 کلو میٹر جنوب کی طرف واقع ہے۔ یہاں  پر ٹیلی وژن ٹرانسمیشن اسٹیشن ، واپڈا دفتر   قائم  ہے۔ یہاں ایک پرایویٹ کمپنی کی چئیر لفٹ بھی ہے ۔ جو پنڈی پوائنٹ سے بانسرہ گلی تک جانی ہے۔

کشمیر پوائنٹ:

    کشمیر پوائنٹ شہر سے شمال مشرق کی طرف 3 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ علاقہ پنڈی پوائنٹ کی نسبت ذیادہ بلند ہے اور سردی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ یہاں سے آپ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں اور کشمیر کے پہاڑوں کا نظارہ کر سکتے ہیں۔

پتریاٹہ:

       پتریاٹہ مری سے 20 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ اور سطح سمندر سے 7335 فٹ بلند ہے۔ یہاں پر ایشیاء کی بڑی چئر لفٹ بھی ہے۔    پتریاٹہ میں محکمہ جنگلات کا ریسٹ ہاوس بھی ہے جو 1914 کو تعمیر ہوا۔

خیرہ گلی:

          مری سے 14 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع قدیم طرز کی دکانوں پر مشتمل بازار ہے۔ جو سطح سمندر سے 7268 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔

  چھانگلہ گلی:

  چھانگلہ گلی مری سے 18 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔اور سطح سمندر سے8329 فٹ کی بلندی پر ہے۔ یہاں کا بڑا ہوٹل ڈیزی ڈاٹ کافی فاصلے سے نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔  اگر مطلع صاف ہو تو یہاں سے راولپنڈی  شہر با آسانی نظر آتا ہے۔


نتھیا گلی:

  یہ مری اور ایبٹ آباد کے بلکل سنٹر میں واقع گلیات کا سب سے بلند تفریحی مقام ہے۔ اس کے بلندی 8500 فٹ ہے۔

Wednesday, August 16, 2017

مری کے سماجی بہبود کے ادارے

                       مری کا پہلہ سماجی بہبود کا ادارہ 1930 میں مسوٹ کے ایک سماجی کارکن آغا میر اکبر نے قا ئم کیا۔  
اور اس کا نام "ادارہ سماجی بہبود مسوٹ" رکھا۔
                
                   1967 میں ایک اور ادارہ" دار الرحمت" قائم ہوا ۔ جس  کے بے سہارہ عورتوں اور بچیوں کو سلائی کڑھائی کا ہنر سکھایا گیا اور ان کو معاشی طور پر خود کفیل بنایا گیا۔
  
                    1989 میں چارہان کی ایک خاتون مسز نصرت سراج نے "گرین لینڈ سوشل ویلفئر سوسائٹی" کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔اس ادارے نے اپنے فلاحی منصوبوں کی تکمیل کے لئے یونیسف کے تعاون سے علاقے میں ووکیشنل ٹریننگ سنٹر، موبائل ڈسپنسری،مدر اینڈ چائلڈ کئر سنٹر، جیسے پروگرام شروع کئے۔

                  1992 میں "انجمن تکمیل مقاصد" کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کے تحت متعدد ٹیوب ویل اور واٹر پمپ لگائے گئے۔ یہ ادارہ پھگواڑی کی ایک سماجی شخصیت حاجی منشا صاحب نے کیا۔

               2002 میں " سواں ویلی" کے نام سے پھپھڑیل میں ایک فلاحی ادارہ  خورشید عباسی صاحب نے قائم کیا۔ اس کے تحت ایک ہائی سکول اور ایک کالج کام کر رہا ہے۔

                اس کے علاوہ مری شہر کے گردو نواح میں درج ذیل تنضیمیں شامل ہیں۔


    پیپلز ویلفئر کونسل-
سانج ویلفئر سوسائٹی-
 انجمن فروغ تعلیم مری-
اتحاد ویلفئر ملوٹ- 
پیبلز ویلفئر کونسل 
فرینڈز ویلفئر ڈھانڈہ۔
فرینڈز ویلفئر پڑھنہ
سوشل ویلفئر موہڑہ شریف


مری کے مضافات

مری کے مضافات مسوٹ: شہر کے شمال میں 12 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔اور سطح سمندر سے تقریبا 6500 فٹ کی بلندی پر ہے۔998 ایکڑ  رقبے پر پھ...