صفحات

Monday, August 28, 2017

مری کے مضافات


مری کے مضافات
مسوٹ:
شہر کے شمال میں 12 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔اور سطح سمندر سے تقریبا 6500 فٹ کی بلندی پر ہے۔998 ایکڑ  رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔زیادہ تر ڈھونڈ ہیں 
مسیاڑی:
شہر کے جنوب مشرق میں 3 کلو میٹر کے فاصلے پر پہاڑ کی ڈھلوانی سطح پر 6000 فٹ کی بلندی پر ہے۔ اس کا رقبہ 759 ایکڑ ہے۔اس میں بھی زیادہ تر ڈھونڈ  ہی ہیں 
ملوٹ ڈھونڈاں:
شہر کے شمال میں 13 کلو میٹر فاصلے پر موہڑہ شریف مزار سے ملحقہ یہ گاوں 477 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔زیادہ تر ڈھونڈ ہیں اور تھوڑی تعداد میں راجپوت اور اعوان بھی ہیں۔
ملوٹ ستیاں:
شہر کے جنوب میں 38 کلو میٹر دور پہاڑی کی ڈھلان پر 4400 فٹ کی بلندی پر واقع یہ گاوں 22 چھوٹی ڈھوکوں پر مشتمل ہے۔ اور کل رقبہ 3600 ایکڑ ہے۔ یہاں زیادہ اکثریت ستی قبیلے کی ہے۔
مہنگل:

مری سے 22 کلو میٹر کے فاصلے پر 3293 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا  ہے۔ یہاں دھنیال قبیلہ زیادہ تعداد میں ہے 

add or remove watermark

بجلی

 مری میں بجلی 1933 میں آئی۔ایک ہندو صنعت کار گلاٹی مل کی کمپنی تھی اور اس کا نام " گلاٹی مل الیکٹرک پاور کمپنی" رکھا گیا۔اس کمپنی نے اسی سا ل کلڈنہ میں پاو ہاوس تعمیر کروایا۔ دو سال کے عرصے میں اہم سرکاری دفاتر اور کوٹھیوں کو بجلی کی سہولت دی گئی۔
9 مارچ 1935 کو پہلی بار پاور ہاوس میں دو ڈیزل انجن نصب کئے گئے۔ جو 70 کلو واٹ کے تھے۔ 
بجلی کی آمد سے شہر کی اہمیت اور کشش میں اضافہ ہوا اور سیاحوں کی تعداد بھی بڑھی۔اس ضرورت کے پیش نظر 1938 اور 1940 میں مزید 4 پاور 
انجن نصب کئے گئے اور اب ان کی تعداد آتھ ہو گئی۔ آزادی کے دو سال بعد حکومت نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا۔ اور دور دراز مضافات میں پہنچا دیا۔
1958 میں یہاں لکڑی کے پول ہٹا  کر آہنی پول نصب کئے گئے۔ 1958 میں جب مالاکنڈ پاور پلانٹ سے بجلی مہیا ہونے لگی تو پرانے آٹھ انجنوں کو روک دیا گیا۔
شہر اور اس کے نواحات میں جن مقامات پر بجلی کے سب اسٹیشن ہیں ان کے نام یہ ہیں۔
پنڈی پوائنٹ،تریٹ،جی پی و چوک،چھرہ پانی،کشمیر پوائنٹ،کلڈنہ ،گھوڑا گلی

Saturday, August 26, 2017

آبادی اور قومیں

 تحصیل مری نے 434 مربع کلومیٹر کا مجموعی علاقہ قبضہ کر رکھا ہے ۔1998 کی مردم شماری کے مطابق 176426 افراد کی آبادی ہے جس میں 155،051 دیہی علاقوں میں رہتے ہیں جبکہ دیگر مری شہر میں رہتے ہیں اور مختلف پہاڑوں ، پہاڑیوں اور دیہاتوں میں پھیلتے ہیں.

ڈھونڈ (عباسی) قبیلے نے مری کے زیادہ سے زیادہ دیہی علاقوں پر قبضہ کر رکھا  ہے. یہ قبیلہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس  سے شروع ہوتا ہے.  ارد گرد کے تمام علاقوں میں ڈوھنڈ(عباسیوں) کی کافی موجودگی ہے. قبائلی آزاد کشمیر میں بھی ان کی زیادہ تر آبادی ہے. ضلع منصور، اسلام آباد اور راولپنڈی، تک یہ موجود ہیں۔
کچھ ایسے قبیلے ہیں جو تحصیل مری میں موجود ہیں جن میں ستی، کیتھوال ، مغل،قریشی ،گجر اور اعوان شامل ہیں۔ستی زیادہ تر کوٹلی ستیاں میں آباد ہیں۔

.شہری علاقوں میں ملک بھر سے لوگوں بڑی تعداد ہوتی ہے ۔جو گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے آتے ہیں، مستقل لوگ تعداد میں بہت کم ہیں۔

Friday, August 25, 2017

صنعت و حرفت

 مری ایک پہاڑی علاقہ ہے اور میدانوں سے الگ  تھلگ ہونے کی وجہ سے یہاں  صنعت و حرفت،تجارت کے مواقع ہمیشہ ہی کم رہے ہیں۔ انگریزوں نے بھی کچھ مصلحتوں کے باعث اس علاقے  کو صنعت و حرفت کے شعبے میں پیچھے رکھا۔تاہم یہاں  ماضی میں  انفرادی سطح پر اور اداروں کی صورت میں صنعتوں کے قیام کی کوشش کی گئی۔ اور 1860 میں پہلی صنعت "مری بروری ڈسٹلری" کے نام سے قائم  کی گئی۔شراب سازی کی یہ صنعت ایشیا ء کی سب سے قدیم  صنعتوں میں سے ایک تھی۔جس کی ابتدا دو لاکھ کے سرمائے سے کی گئی۔1900 میں اسے پنڈی منتقل کیا گیا اور  1947 میں کے  فسادات میں جل کر خاکستر ہو گئی۔

1963 میں تریٹ میں کالین بافی کی گھریلو  صنعت قائم ہوئی۔

1946 میں سنی بنک میں شہد کی مکھیوں کا ایک فارم قائم  کیا گیا۔        

       زراعت میں آلو اور مکئی کو  اس علاقے میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ سبزیاں اگانے کا رواج بھی عام ہے۔مارچ کے مہینے میں جنگلات میں کھمبیاں (جنہیں مقامی زبان میں گچھیاں  کہا جاتا ہے)پیدا ہوتی ہیں۔جو بادلوں کی گرج میں زمین کی تہوں سے پھوٹ نکلتی ہیں۔ یہ خود رو گچھیاں ایک منفرد پیداوار ہیں۔ یہ  دل کے مریضوں کے لئے بہت فائدہ مند ہوتی ہیں۔یہاں کے پھلوں میں سیب سب سے اچھا  اور لذیز پھل ہے۔اگرچہ یہاں کا سیب ابھی مٹھاس اور رس میں کشمیر اور کوئٹہ کے سیب کا مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن اس کااپنا منفرد ذائقہ ہے۔  1960 میں یہاں پھلدار درخت لگانے کی مہم کا  آغاز ہوا ۔ جس کے تحت کوٹلی،چارہان،کرور،چھرہ پانی،دہلہ،اوسیاہ اور گہل میں نرسریاں قائم کی گئی۔ان نرسریوں میں تجربات کرنے کے لئے سیبوں کے مختلف پودے آسٹیریلیا،امریکہ،بھارت،اور لبنان سے منگوائے گئے۔اور لوگوں کو  درخت لگانے  کی ترغیب دی گئی۔  1960 سے لے کر 1967 تک کروڑوں پودے باہر سے منگوا کر  کاشت کاروں میں تقسیم کئے گئے۔ اس عشرے میں اعلی معیار کا سیب پیدا ہوا اور دوسرے شہروں میں بھی سپلائی کیا گیا۔ مگر بعد  میں سپرے دی عدم دستیابی اور مقامی لوگوں کی  عدم توجہی کی وجہ سے  سیبوں کی پیداوار بہت کم ہو گئی۔

Thursday, August 24, 2017

ملکہ کوہسار کا موسم

 پورے سال مری کا موسم خوشگوار رہتا ہے.  بہار کا دلفریب  موسم مارچ سے لے کر مئی کے آخر تک رہتا ہے۔مارچ کے اوائل میں زیادہ تر بارشیں اولے اور بجلی کی کڑک ہوتی ہے۔   جون  پاکستان کا سب سے گرم مہینہ ہے لیکن یہاں موسم گرما برائے نام ہی ہوتا ہے۔یہ عام طور پر مئ کے آخر سے لے کر جولائی کے اوائل تک رہتا ہے۔ اس مہینے میں بھی  25 ° C یا 77 ° F درجہ حرارت کو چھوتا ہے. یہ سیاح حضرات کے لئے ایک بہت آرام دہ درجہ حرارت ہے. موسم گرما کے موسم کے دوران ملک کے میدانوں کے درجہ حرارت 40 ° C (104 ° F) تک پہنچ جاتا ہے.

               جولائی کےآغاز سے اگست کے اواخر تک موسم برسات رہتا ہے۔ یہی اس پہاڑی اسٹیشن کی مقبولیت کا بنیادی سبب ہے. برسات کے دنوں میںپہاڑوں پر دھند کا غلاف چڑھا رہتا ہے۔ جو مری کے  فطری حسن کا خاص تحفہ ہے۔ سب سے زیادہ سیاح انہی دنوں مری کا رخ کرتے ہیں۔

                   ستمبر کے وسط سےیہاں خزاں کا آغاز ہو جاتا ہے جو سردیوں کے شروع تک جاری رہتا ہے۔یہ موسم اپنے ساتھ اداسی لاتا ہے۔کیونکہ  سیاح بھی اپنا رخت  سفر باندھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان دنوں میں مال روڈ پر بہت کم رش ہوتا ہے۔
موسم سرما کا آغاز دسمبر کے شروع میں ہوتا ہے اور مارچ کے آغاز تک جاری رہتا ہے۔موسم  سرما بہت سرد ہوتا ہے اور برف باری زیادہ اور بار بار ہوتی ہے. برفباری کا نظارہ بھی سیاحوں کے لئے بہت دلکش ہوتا ہے۔. موسم سرما کے موسم میں مری کا درجہ -3.3 سے -12 تک گر جاتا ہے. اور  بعض جگہ  تو  درجہ حرارت 18 C.تک پہنچ جاتا ہے ان دنوں میں سکول کالج بند ہوتے ہیں۔ 
کہا جاتا ہے کہ مری میں سب سے زیادہ برف باری 1943 میں ہوئی  جو بیک وقت 13 فٹ تک تھی۔ 1953 میں بھی شدید برف باری ہوئی تھی جومسلسل تین دن اورتین راتوں تک جاری رہی اور بیک وقت 6 فٹ تک برف پڑی تھی۔ 

               آزادی سے پہلے یہ برطانوی حکمرانوں کے پسندیدہ پہاڑی سٹیشن تھا. یہ برصغیر میں ان کےلئے گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے لئے ان کا بہترین ذریعہ تھا.  مری شہر  کی اونچائی  سطح سمند سے7،000 فٹ ہے ۔

Thursday, August 17, 2017

مری کے تفریحی مقامات

پنڈی پوائنٹ 

 پنڈی پوائنٹ مری مال روڈ سے 3 کلو میٹر جنوب کی طرف واقع ہے۔ یہاں  پر ٹیلی وژن ٹرانسمیشن اسٹیشن ، واپڈا دفتر   قائم  ہے۔ یہاں ایک پرایویٹ کمپنی کی چئیر لفٹ بھی ہے ۔ جو پنڈی پوائنٹ سے بانسرہ گلی تک جانی ہے۔

کشمیر پوائنٹ:

    کشمیر پوائنٹ شہر سے شمال مشرق کی طرف 3 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ علاقہ پنڈی پوائنٹ کی نسبت ذیادہ بلند ہے اور سردی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ یہاں سے آپ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں اور کشمیر کے پہاڑوں کا نظارہ کر سکتے ہیں۔

پتریاٹہ:

       پتریاٹہ مری سے 20 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ اور سطح سمندر سے 7335 فٹ بلند ہے۔ یہاں پر ایشیاء کی بڑی چئر لفٹ بھی ہے۔    پتریاٹہ میں محکمہ جنگلات کا ریسٹ ہاوس بھی ہے جو 1914 کو تعمیر ہوا۔

خیرہ گلی:

          مری سے 14 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع قدیم طرز کی دکانوں پر مشتمل بازار ہے۔ جو سطح سمندر سے 7268 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔

  چھانگلہ گلی:

  چھانگلہ گلی مری سے 18 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔اور سطح سمندر سے8329 فٹ کی بلندی پر ہے۔ یہاں کا بڑا ہوٹل ڈیزی ڈاٹ کافی فاصلے سے نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔  اگر مطلع صاف ہو تو یہاں سے راولپنڈی  شہر با آسانی نظر آتا ہے۔


نتھیا گلی:

  یہ مری اور ایبٹ آباد کے بلکل سنٹر میں واقع گلیات کا سب سے بلند تفریحی مقام ہے۔ اس کے بلندی 8500 فٹ ہے۔

Wednesday, August 16, 2017

مری کے سماجی بہبود کے ادارے

                       مری کا پہلہ سماجی بہبود کا ادارہ 1930 میں مسوٹ کے ایک سماجی کارکن آغا میر اکبر نے قا ئم کیا۔  
اور اس کا نام "ادارہ سماجی بہبود مسوٹ" رکھا۔
                
                   1967 میں ایک اور ادارہ" دار الرحمت" قائم ہوا ۔ جس  کے بے سہارہ عورتوں اور بچیوں کو سلائی کڑھائی کا ہنر سکھایا گیا اور ان کو معاشی طور پر خود کفیل بنایا گیا۔
  
                    1989 میں چارہان کی ایک خاتون مسز نصرت سراج نے "گرین لینڈ سوشل ویلفئر سوسائٹی" کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔اس ادارے نے اپنے فلاحی منصوبوں کی تکمیل کے لئے یونیسف کے تعاون سے علاقے میں ووکیشنل ٹریننگ سنٹر، موبائل ڈسپنسری،مدر اینڈ چائلڈ کئر سنٹر، جیسے پروگرام شروع کئے۔

                  1992 میں "انجمن تکمیل مقاصد" کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کے تحت متعدد ٹیوب ویل اور واٹر پمپ لگائے گئے۔ یہ ادارہ پھگواڑی کی ایک سماجی شخصیت حاجی منشا صاحب نے کیا۔

               2002 میں " سواں ویلی" کے نام سے پھپھڑیل میں ایک فلاحی ادارہ  خورشید عباسی صاحب نے قائم کیا۔ اس کے تحت ایک ہائی سکول اور ایک کالج کام کر رہا ہے۔

                اس کے علاوہ مری شہر کے گردو نواح میں درج ذیل تنضیمیں شامل ہیں۔


    پیپلز ویلفئر کونسل-
سانج ویلفئر سوسائٹی-
 انجمن فروغ تعلیم مری-
اتحاد ویلفئر ملوٹ- 
پیبلز ویلفئر کونسل 
فرینڈز ویلفئر ڈھانڈہ۔
فرینڈز ویلفئر پڑھنہ
سوشل ویلفئر موہڑہ شریف


Tuesday, August 15, 2017

مری کے ہائکنگ ٹریکس:

    1985 میں "مری ڈویلپمنٹ اینڈ بیوٹی فیکیشن پلان" کا قیام عمل میں آیا۔ اس پلان کے تحت مری کے اطراف میں چند ہائکنگ ٹریکس بنائے گئے۔ جو گھنے جنگلات سے گرزتے تھے۔


1:   ریلوے ریسٹ ہاوس                                سے                ڈیری فارم جھیکا گلی
2:   کشمیر پوائنٹ                                        سے                 کلڈنہ بازار۔ 
3:   پنڈی پوائنٹ چکر                                   سے                 جیسس اینڈ میری سکول کے گیٹ تک
4:    بھوربن گالف کلب                                 سے                  موہڑہ شریف تک
5:   بھوربن ریسٹ ہاوس                               سے                  گل آباد تک
6:   گھڑیال کیمپ                                         سے                  ڈنہ مسجد تک۔
7:   ڈونگا گلی                                              سے                  ایوبیہ تک۔
8:   میرا جانی                                             سے                   نتھیاگلی تک
 9:                    ڈنہ مسجد کے دامن سے گزرتا ہوا بھوربن فاریسٹ ریسٹ ہاوس تک

Sunday, August 13, 2017

مری میں تعمیرات:murree main taameerat


مری میں اولین کوٹھیاں 1850 میں بننا شروع ہو گئی تھیں جن میں فیر فیلڈ، غلزی لاج جو بعد میں مرینہ ہوٹل اور اپ دلکشا ہوٹل ہے ۔  سپر کاٹیج، ایبے ہاوس، راک ایج وغیرہ۔

             سپر کاٹیج ایک ناقابل فراموش تاریخی حیثیت رکھتا ہے جہاں 1857 کی جنگ آزادی کے کئی مجرموں کو سزائے موت دی گئی۔

          1935 کے انڈیا ایکٹ نے انگریزوں کو یہ ماننے پر مجبور کر دیا تھا کہ اب ہندوستان ان کے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔ اس لئے انہوں نے اپنی املاک فروخت کرنا شروع کر دیں۔ آخری برطانوی باشندے مسٹر ایچ۔ او۔ نے اپنی پراپرٹی جو کلفڈن بانسرہ گلی میں تھی سید مراتب شاہ کے ہاتھوں فروخت کر دی اور 1954 میں واپس انگلینڈ چلا گیا۔

     ماضی قریب تک مری میں موجود کیکباد خاندان سیٹھ دھن جی بھائی کی اولاد تھے۔ کشمیر پوائنٹ میں مشہور عمارت فرہل سیٹھ صاحب کی ملکیت تھی  جو تقسیم برصغیر کے بعد گورنر پنجاب کے زیر استعمال رہی۔ بعد میں یہ عمارت میاں ریاض دولتانہ کی ملکیت بنی اور اب تہمینہ دولتانہ نے یہاں گیسٹ ہاوس بنایا۔

      کیکباد  خاندان کی مری میں اور بھی جائداد تھی۔  2000 میں انہوں نے جی پی او چوک کے قریب ایک مارکیٹ بنائی۔ 
نیچے والا حصہ دوکانوں پر مشتمل ہے اور اوپر المعاز ہوٹل ہے۔

        1947  میں تباہ شدہ پراپرٹی کی بحالی کے لئے جسٹس ایس۔ اے رحمان کو کسٹوڈین بنایا گیا۔ بعد میں یہ جلے ہوئے بنگلے 1000 سے 1500  روپے کنال کے حساب سے فروخت ہوئے۔

Saturday, August 12, 2017

قائد اعظم محمد علی جناح کی مری آمد: quaid e azam ki murree aamad

تقسیم برصغیر سے پہلے قائد اعظم محمد علی جناح اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے ہمراہ جولائی  1944
میں مری تشریف لائے۔کوہالہ کے پل پر اہلیان مری نے ان کا پر تپاک استقبال کیا۔لوئر بازار کے ایک حلوائی سمندر خان نے انہیں کاندھے پر اٹھا لیااور انہیں جلوس کی شکل میں مال روڈ لایا گیا۔

Friday, August 11, 2017

مری تاریخ کے آئینے میں:

مری کا علاقہ سکندر اعظم کے حملے کے وقت ٹیکسلہ کے حکمران راجہ امبی کے زیر تسلط تھا۔ سولہوی صدی میں مغلیہ سلطنت کا حصہ قرار پایا۔ 


1830:           مٰیں مہاراجہ گلاب سنگھ کو جو اس وقت کشمیر کا فرمانروا تھا۔ جاگیر کے طور پر دی گئی۔
1832 :           میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنی سلطنت میں شامل کیا۔
1846:            مہاراجہ کشمیر کے زیر نگین آیا۔
1849:            میں انگریزوں کے قبضہ میں آیا اور جلد ہی انہوں نے اسے آباد کیا۔
1855:            میں انگریزوں نے مری کے حقوق ملکیت حاصل کئے۔
1860:            مال روڈ  پر تعمیرات  ہوئیں۔
1871:            1876 ۔1879 - 1888 ہیضہ کی وبا پھیلی۔
1873:            سے 1876 تک حکومت پنجاب کا گرمائی صرد مقام رہی۔
1873:            مری کے لئے سڑک تعمیر کی گئی جبکہ 13 مئی 1922 پہلے ٹھوس ٹائر والی پس چلائی گئی۔
1873:           25 دسمبر کو لوئر بازار میں آگ لگی۔
1875:           17 مئی کو لوئر بازار میں دوبارہ آگ لگی۔
1876:           ہیضہ کی وبا کی وجہ سے گرمائی صدر مقام شملہ منتقل ہوا۔
1881:           مردم شماری ہوئ مری کی آبادی 2489 نفوس پر مشتمل تھی۔
1887:           میں مری میں 1600 یورپین آباد تھے۔ 
1932:           مری میں لائبریری قائم ہوئی اور نام نہرو لائبریری رکھا گیا۔
1935:          مری میں بجلی آئی۔
1938:          بابائے مری کرنل جان پاول کا انتقال ہوا۔
1944:         جولائی میں قائد اعظم محمد علی جناح نے مری کا دورہ کیا۔
1947:         تقسیم ہند کے وقت 6 ہوٹل اور 100 بنگلے جلا دئے گئے۔
1949:         میں ہندوستانی طیاروں نے 2 بم گرائے۔
1955:         پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا اجلاس مری کلب ہال میں ہو
۔1956:         صدیق چوہدری مری کے ناظم مقرر ہوئے۔ انکے ڈی سی بننے پر مری شہر میں واقع کری چوک                  کا نام صدیق چوک رکھا گیا۔
1961:         مردم شماری ہوئی اور کل آبادی 7132 تھی۔
1981:         کی مردم شماری کے مطابق مری تحصیل کی کل آبادی 221500 تھی۔
1999:         3 جنوری کو مال روڈ پر آگ لگی۔

Tuesday, August 8, 2017

مال روڈ کی تعمیر

جی پی او چوک سے عثمانیہ ریسٹورنٹ تک سڑک مال روڈ کہلاتی ہے۔  اس کی تعمیر انگریزوں نے 1857 میں کی ۔اس سڑک پر دوکانیں ہوٹل واقع ہیں۔گرمیوں کے سیزن میں یہاں بہت رش ہوتا ہے۔رات بھر لوگ یہاں گومتے رہتے ہیں۔نوجوانوں کی ٹولیاں مال روڈ پر گھومتی اور لطف اندوز ہوتی ہیں۔مال روڈ پر  ہر قسم کی کھانے کی اشیاء، ہینڈی کرافٹ، شالیں، ڈیکوریشن، کا سامان، ریڈی میڈ ملبوسات،فوٹوگرافی وغیرہ کی سہولت موجود ہے۔

Monday, August 7, 2017

مری کی تاریخ:

مری کی معلوم تاریخ چند سو سال پرانی ہے۔ ترکوں نے امیر تیمور کی معیت میں پندرھویں صدی میں برصغیر پر لشکر کشی کی تھی۔ 1525 میں مغل سلطنت کا حصہ رہی۔ اس وقت یہاں گنھے جنگلات کے سوا کچھ نہ تھا۔

               جب یہ علاقہ مہاراجہ کشمیر کی عملداری میں تھا تو اس خطے کے لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔کشمیر کے ڈوگرہ  حکمرانوں نے اس علاقے پر اپنا قبضہ مظبوط کرنے کی خاطر مری سے کوہالہ کا راستہ بنوایا۔
مری کے پہاڑی قبائل نے ظلم و تشدد کے خلاف آواز اٹھائی اور پوٹھہ شریف کواپنا مرکز بنا کر مہاراجہ کشمیر کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ اس لڑائی میں فعال قبیلہ ڈھونڈ (عباسی ) کو بہت نقصان پہنچا۔
                  اٹھا رہ سو انچاس میں یہ علاقی انگریزوں کی عملداری میں آیا ۔  بعض لوگوں کا خیال ہے انگریزوں نے مکرو فسے مری کا     علاقہ راجگان سے  1855 میں صرف 1940 روپے کی یکمشت ادائیگی کر کے حاصل کر لیا۔ ایک اور بھی کہانی مشہور ہے کہ سودے کے بعد مری کے راجگان نے انگریز کو 10 روپے واپس کر دئیے اور اس سے کہا کہ  آپ میم  صاحبہ کو کپڑے لے کر دے دینا۔( کیونکہ اس نے انگریزوں کا شارٹ لباس پہنا ہوا تھا۔ اس لئے لوگوں نے سوچا کہ اس کے پاس لباس لینے کے پیسے نہیں۔

           بہرحال یہ حقیقت ہے کہ مری کے گیارہ  دیہات انگریزوں نے خرید لئے(پٹھلی، تپہ کیر، چارہان،روات،سندھیاں،دھار جاوا،کھنی تاک،لکوٹ،ملوٹ،نمب،اور نمبل) اور مالکان کو کل دو ہزار پچاس روپے      
               
            مسیاڑی گاوں کے لوگوں نے زمین بیچنے سے انکار کیا تو انگریزوں نے مکتوب 4017 مورخہ 23 نومبر 1855 کوجے لارنس چیف کمشنر پنجاب کے ذریعے مبلغ 50 روپے سالانہ پٹے پر زمین حاصل کر لی اور گاوں کے لوگوں کو پٹے کی سالانہ رقم 50 روپے ملنے کا سلسلہ ماضی تک جاری رہا۔

مری کی تعمیر و ترقی کا  سلسلہ انگریزوں کے مرھون منت ہے۔ اگر وہ یہاں دلچسپی نہ لیتے تو مری ایسا نہ ہوتا۔

مری کا نام کس طرح پڑا

               مری  کے نام پر اختلاف  ہےکہ یہ نام کیسے پڑا کچھ لوگ کہتے ہیں۔ مری کےایک انگریز حکمران مسٹر مرے کی وجہ سے  یہ نام مشہور ہوا ایک طبقہ خیال کرتا ہے کہ اونچے ٹیلے کو مقامی زبان میں مڑھی کہنے کی وجہ سےیہ نام مشہور ہوا۔کچھ لوگوں کے خیال کے مطابق چونکہ یہاں بڑے اور قریبی گاوں کا نام مسیاڑی تھا جس کا تلفظ بگڑتے بگڑتے ماڑی یا مری ہو گیا۔آیک روایت کے مطابق مری کا نام مری شہر کے ایک پکنک پواینٹ پنڈی پوائیٹ کی پہاڑی  میں مدفون کسی بزرگ خاتون مائی مریاں کی وجہ سے مری پڑا یا پھر قبر ہونے کی وجہ سے جسے عام زبان میں مڑھی کہتے ہیں یہ علاقہ مڑھی کہلایا اور بعد میں انگریزوں نے اسے مری کہنا شروع کر دیا۔ 
     بعض محققین کا خیال ہے کہ یہ لفظ ترکی زبان کا ہے جس کے معنی چراگاہ کے ہیں۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کے جب ترک فاتح بن کر آئے اور یہاں اقامت گزیں ہوئے اس وجہ سے اس کا نام مری پڑا۔ 

Wednesday, August 2, 2017

ملکہ کوہسا مری

   

مری پاکستان کا ایک نہایت دلکش سیاحتی مقام ہے۔یہاں ہر سال لاکھوں سیاح آتے ہیں۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں یہاں خاصا رش ہوتا ہے۔ جب پنجاب میں گرمیوں کی چھٹیاں ہوتی ہیں تو پورے ملک کےطول وعرض سے لوگ چھٹیاں گزارنے کے لئے خاص طور پر یہاں آتے ہیں۔گرمیوں میں جب پورے ملک میں بلا کی گرمی پڑتی ہے تو اس وقت مری کا موسم بہت خوشگوار ہوتا ہے۔    
 ویسے تو مری میں بہت سے پکنک پوائنٹ ہیں جیسے کشمیر پوائنٹ،پنڈی پوائنٹ، نیو مری،گلیات وغیرہ۔۔ لیکن مال روڈ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ گرمیوں میں یہاں بہت رش ہوتا ہے اور مال روڈ لوگوں سے کھچا کھچ بھر جاتا ہے۔

مری کے مضافات

مری کے مضافات مسوٹ: شہر کے شمال میں 12 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔اور سطح سمندر سے تقریبا 6500 فٹ کی بلندی پر ہے۔998 ایکڑ  رقبے پر پھ...