مری کی معلوم تاریخ چند سو سال پرانی ہے۔ ترکوں نے امیر تیمور کی معیت میں پندرھویں صدی میں برصغیر پر لشکر کشی کی تھی۔ 1525 میں مغل سلطنت کا حصہ رہی۔ اس وقت یہاں گنھے جنگلات کے سوا کچھ نہ تھا۔
جب یہ علاقہ مہاراجہ کشمیر کی عملداری میں تھا تو اس خطے کے لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔کشمیر کے ڈوگرہ حکمرانوں نے اس علاقے پر اپنا قبضہ مظبوط کرنے کی خاطر مری سے کوہالہ کا راستہ بنوایا۔
مری کے پہاڑی قبائل نے ظلم و تشدد کے خلاف آواز اٹھائی اور پوٹھہ شریف کواپنا مرکز بنا کر مہاراجہ کشمیر کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ اس لڑائی میں فعال قبیلہ ڈھونڈ (عباسی ) کو بہت نقصان پہنچا۔
اٹھا رہ سو انچاس میں یہ علاقی انگریزوں کی عملداری میں آیا ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے انگریزوں نے مکرو فسے مری کا علاقہ راجگان سے 1855 میں صرف 1940 روپے کی یکمشت ادائیگی کر کے حاصل کر لیا۔ ایک اور بھی کہانی مشہور ہے کہ سودے کے بعد مری کے راجگان نے انگریز کو 10 روپے واپس کر دئیے اور اس سے کہا کہ آپ میم صاحبہ کو کپڑے لے کر دے دینا۔( کیونکہ اس نے انگریزوں کا شارٹ لباس پہنا ہوا تھا۔ اس لئے لوگوں نے سوچا کہ اس کے پاس لباس لینے کے پیسے نہیں۔
بہرحال یہ حقیقت ہے کہ مری کے گیارہ دیہات انگریزوں نے خرید لئے(پٹھلی، تپہ کیر، چارہان،روات،سندھیاں،دھار جاوا،کھنی تاک،لکوٹ،ملوٹ،نمب،اور نمبل) اور مالکان کو کل دو ہزار پچاس روپے
مسیاڑی گاوں کے لوگوں نے زمین بیچنے سے انکار کیا تو انگریزوں نے مکتوب 4017 مورخہ 23 نومبر 1855 کوجے لارنس چیف کمشنر پنجاب کے ذریعے مبلغ 50 روپے سالانہ پٹے پر زمین حاصل کر لی اور گاوں کے لوگوں کو پٹے کی سالانہ رقم 50 روپے ملنے کا سلسلہ ماضی تک جاری رہا۔
گڈ ورک زبردست کام ہے مری کی ہسڑی کے حوالے مجھے مزید معلومات چائیےھے03235856877
ReplyDeleteبہت اچھا راہنمائی کی گئی
ReplyDelete